Posts

حضرت بہلول ایک بازار سے گزرے تو ایک حلوائی

Image
حضرت بہلول ایک بازار سے گزرے تو ایک حلوائی صبح صبح دودھ بیچ رہا تھا حضرت بہلاول اس کے پاس گئے تو اس حلوائی نے دودھ کا کلاس مفت میں حضرت بہلول کو پیش کیا ۔حضرت بہلول نے دودھ پیا اور اسے دعا دے کر آگے چل دیے ۔ ایک فحاشہ عورت بازار میں  اپنے دوست معشوق کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ کے موسم کا لطف لیے رہی تھی ہلکی ہلکی بارش بھی ہورہی تھی سانول کی رت لگی ہوئی تھی وہ سیڑھیوں پر بیٹھے موسم کا لطف لے رہے تھے کہ اچانک حضرت بہلول اپنی موج مستی میں بغیر ان کو دیکھے نگاہیں نیچی کیے ہوئے جا رہے تھے حضرت بہلول کی لکڑی جو ان کے ہاتھ میں ہمیشہ ہوتی تھی اس لکڑی کا کھچڑ کبھی دائیں گرتا کبھی بائیں گرتا ۔جب حضرت بہلول اس فحاشہ عورت کے قریب سے گزرے تو آپ کی لکڑی سے کھچڑ اوپر اچھلا اور اس عورت کے لباس پر گرگیا ۔اس کے پاس بیٹھا ہوا اس کا عاشق اسے بڑا غصہ آیا ۔اٹھا اور آتے ہی حضرت بہلول کے چہرے پر تھپڑ مارا ۔کہنے لگا فقیر بنے پھرتے ہو چلنے کی تمیز نہیں قمیتی لباس ضائع کردیا۔  آل محمد کے دیوانے نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگے یا اللہ تو بڑا بے نیاز ہے کہی سے دودھ پلاتا ہے اور کہی سے تھپڑ مرواتا ہے.یہ

محبت سے نفرت تک"

Image
محبت سے نفرت تک"👈 علی میری آج طبیعت ٹھیک نہیں ہے کل بات کریں؟ ہاں ٹھیک ہے میں بھی سوتا ہوں بس کچھ وقت تک۔۔۔۔  ہممم۔۔۔۔۔ چلو پھر میں کال کٹ کرتی ہوں۔  ہاں کر دو ۔۔۔۔۔۔۔اور سنو پری، ہاں ؟؟ اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔  ھممم ok ۔۔۔۔اللہ‎ حافظ ۔۔۔ اللہ‎ حافظ 😊 ۔ ....رات کے 11 بجے ہم دونوں میں اتنی بات ہوئی اور کال کٹ۔۔۔ کچھ دیر موبائل گیم میں مصروف رہا اور سوگیا۔۔۔۔۔ کچھ پل گزرا آنکھ کھلی شاید 2 بجے کا ٹائم تھا۔۔۔ ناجانے کیسے اسکا نمبر ملا دیا۔۔۔۔ لیکن یہ کیا؟ ؟؟ اسکا نمبر ویٹینگ پر تھا۔ وہ جو تھوڑی سی نیند تھی آنکھ میں دل کی تیز دھڑکن سے دور ہو گئی۔۔۔۔  5منٹ بعد کال کٹ ہوئی اور مجھے کال آئی۔۔ اس کی (چھوٹی کزن) تھی۔ اور کہنے لگی کہ " علی موبائل میرے پاس ہے وو سو رہی ہے۔ آواز سے لگ رہا تھا جیسے خود سو کر اٹھی ہو پر کیا کریں شک کی عادت نہیں۔۔ "محبت میں یقین بھی ظلم ہے ھم اعتبار کرتے ہیں ،وہ رات بھر کہیں اور ہوتے ہیں۔۔" رات لمحہ میں گزرجاتی تھی پر آج ہر لمحہ کاٹ رہی تھی۔۔ صبح کو میں نے کال کا انتظار کیا لیکن آج شاید میسج کا بھی اسکا

ایک مصری کا سچا واقعہ ہے

Image
یہ ایک مصری کا سچا واقعہ ہے جس کو۲۰ سال سے حج کی سعادت نصیب ہورہی تھی تو اس پوچھا الله کو اپٓکا کون سا عمل پسند آیا ہے جو وہ ہر سال آپکو بلاتا ہے تو اس نے کہا مجھے تو اپنے اندر ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے مگر یہ ایک دعا کی وجہ سے اسنے کہا جب میں پہلے حج کو گیا تو عرفات کی طرف جاتے ہوئے میں بس میں تھا اور بس آہستہ چل رہی تھی میں کھڑکی سے باہر نے مناظر دیکھ رہا تھا میں نے دیکھا ایک بوڑھی عورت جو بہت فربہ بھی تھی بہت تکلیف اور اذیت سے چل رہی اس کے چہرے سے تکلیف عیاں تھی میں نے دل میں سوچا میں جوان آدمی ہوں میں چل سکتا تو کیوں نہ اس کو اپنی سیٹ پر بیٹھا دوں یہ سوچ کر میں نے بس والے سے رکنے کو کہا۔ اور نیچے اتر کر اس عورت کے پاس گیا اور بولا یا اممی میں چاہتا ہوں تم میری جگہ بس۔ میں سفر کرو اور میں تمھاری جگہ پیدل سفر کروں گا یہ سن کر وہ عورت بہت خوش ہوی اور بس میں سوار ہونے لگی اور آنسو بھر انکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا اے میرے بیٹے میں نے رب سے دعا کی ہے الله تجھ کو ہر سال حج کراے شاید وہ وقت قبولیت کا تھا اگلے سال میری کمپنی نے مجھے اپنے خرچے پر حج پر بھیجا اور پھر کوی نہ کوی میرے لی

ایک دفعہ کا زکر ہے

Image
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضامند ہوجاتا ہے دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔ ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچادیا کرو بیوی راضی ہوجاتی ہے ۔۔ وقت گذرتے گذرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گذارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے گا یوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے بیوی سبب پوچھتی ہے تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر کار تیرا پردہ ختم ہوگیا ۔۔ کیا فرق پڑا پردے اور بے پردگی کا زندگی تو اب بھی ویسے ہی گذر رہی ہے وہ بولتی ہے کہ تم ساتھ والے کمرے میں چھپ جاؤ میں تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھات

ABOUT MAR KHOR ISI

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بستی کے قریبی پہاڑ پر ایک مارخور رہتا تھااس مارخور نے وہ پہاڑ اس لئے چنا تھا کیونکہ اس پہاڑ پر بہت سے چھوٹے بڑے زہریلے سانپ رہتے تھے جو اپنی خبیث حرکتوں سے دوسرے جنگلی جانوروں اور انسانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مارخور سانپ کھا جاتا ہے تو ان سانپوں کا وہ شکار کیا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ پہاڑ پر بسنے والی انسانی آبادی اور تمام مخلوقات میں وہ مارخور مقبول ہوتا گیا۔ لوگ اسے نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ اور اس سے پیار کرنے لگے۔دوسری سانپوں میں کھلبی مچی ہوئی تھی۔وہ دن رات مارخور کو ڈسنے کا سوچتے رہتے۔ مگر جیسے ہی کوئی اسکے قریب آتا مارا جاتا۔ پھر جب کوئی سانپ مار خور کے ہاتھوں مارا جاتا تو یہ بات انکے خاندانوں میں بڑی خاندانوں میں بڑی عزت کی بات سمجھی جاتی تھی۔ جب کسی سانپ کے مرنے کی خبر آتی تو سب سانپ خوب روتے، آنسو بہاتے، اور مرنے والے سانپ کے دوستوں اور رشتےداروں کی تو اچھی خاصی مشہوری ہوجاتی تھی۔ کہ بیچارہ ظلم کے خلاف سچائی کی جدوجہد کرتا مارا گیاآہستہ آہستہ جب ان سانپوں نے دیکھا کہ مارخور کو براہ راست مقابلہ کر کے مارنا ناممکن ہے تو

بہت ہی زبردست واقعہ

Image
powred by iamibrahim@outlook.my 04:44 ایک یہودی کسی مسلمان کا پڑوسی تھا۔ اس یہودی کے ساتھ۔ اس کا مسلمان پڑوسی بہت اچھا سلوک کرتا تھا۔ اس مسلمان کی GVعادت تھی کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد یہ جملہ کہتاتھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی اس مسلمان سے ملتا۔ وہ مسلمان اسے اپنا یہ جملہ ضرور سناتا اور جو بھی اس کے ساتھ بیٹھتا اسے بھی ایک مجلس میں کئی بار یہ جملہ مکمل یقین سے سناتا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ اس مسلمان کا یہ جملہ اس کے دل کا یقین تھا۔ اس نے ایک سازش تیار کی تاکہ اس مسلمان کو ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اور ’’درود شریف‘‘ کی تاثیر پر اس کے یقین کو کمزور کیا جائے۔ اور اس سے یہ جملہ کہنے کی عادت چھڑوائی جائے۔ یہودی نے ایک سنار سے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ اور اسے تاکید کی کہ ایسی انگوٹھی بنائے کہ اس جیسی انگوٹھی پہلے کسی کے لئے نہ بنائی ہو۔ سنار نے انگوٹھی بنا دی۔ وہ یہودی انگوٹھی لے کر مسلمان ک